ٹیگ کے محفوظات: ارطغرل

ارطغرل کے دیس میں

عرصہ پانچ چھ سال بعد آج  ڈیجیٹل جھاڑ پونجھ کرتے ہوئے اس بلاگ پہ نظر پڑی تو یاد آئے وہ زمانے جب ہمارے (کی بورڈی قلم کے ) تلوں میں تیل ہوا کرتا تھا۔ بھلا زمانہ تھا جب رادھا نو من تیل پہ ناچا کرتی تھی، آجکل تو لیٹر لیٹر پہ عوام کو نچایا جا رہا  ہے،  فی زمانہ  حکمرانوں نے تیل ایسے   پہنچ سے دوررکھا ہے جیسے دوائیوں پہ لکھا ہوتا ہے ‘بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں’۔ خیر، بات یہ تھی کہ بلاگ دیکھ کر  ہماری رگِ بلاگیت پھڑکی اور سوچا کہ پھر سے اس ویران کوچے کو آباد کریں۔ بات گزرا زمانہ یاد کرنے سے چلی تھی سو ہم نے سوچا کیوں نہ پارسال جو ہم ارطغرل   دیس (ترکی ) کی یاترا کو گئے اسی کی روداد رقم کردیں۔ بلاگ کا بلاگ ہوجائیگا اور چشمِ تصور میں پھر وہی گلیاں اور مورتیاں رقصاں ہوجائیں گی۔

قصہ یوں ہے کہ ہم ارطغرل کی دیس گئے۔ کب کیسے اور کیوں گئے، یہ کہانی پھر سہی کیونکہ کرونا وائرس کے بعد پاکستانی ایسے ترکی گئے جیسے مری ایوبیہ  نتھیا گلی جاتے ہیں ۔ ضروری بات یہ ہے کہ ہم بھی پہنچے۔ ارطغرل  ڈارمہ  نہیں دیکھا مگر عوام میں جو کریز تھا تو گمان ہوا شاید ترکی والے بھی ایسے ہی پگلائے ہونگے اور اپنی موٹر سائیکلوں ، گاڑیوں پہ کائی قبیلے کا نشان بنا اور موبائل فون پہ ارطغرل کی رنگ ٹون لگائے پھر رہے ہونگے۔  رنگ ٹون کا تو یہ عالم ہے کہ آج بھی ہر تھوڑی دیر بعد کہیں قرب و جوار سے ارطغرل کا گھوڑا دوڑنے لگتا ہے، اور یہ رنگ ٹون لگانے والے ایک خاص بریِڈ ہیں کہ پورا ردھم سنے بغیر کال نہیں اٹھاتے۔ خیر، بیک ٹو دا سٹوری۔  ہم اسی خمارِ ارطغرل میں ائیر پورٹ پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ ارطغرل کو بھلا بیٹھے ہیں، نارمل ، میموں صاحبوں والی زندگی گزار رہے ہیں۔ لش پش کاروں میں گھومتے ہیں، میٹرو میں سفر کرتے ہیں۔  دل نے بے اختیار کہا’

ؔ اگاں لاکے سانوں عشق دیاں آپ میٹھی نیند سونا ایں

ارطغرل تو رہا ایک طرف یہاں تو  نہ لوٹا ہے اور نہ مسلم شاور ۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ اس معاملہ کیلئے جو اہتمام میسر ہے بہت احتیاط کا متقاضی ہے، ہمیں خود کو نشانہ و پریشر  ٹھیک کرتے تین دن لگ گئے۔ لوگوں نے  منی بار سے منرل واٹر کی ٹھنڈی بوتلوں سے حاجت روائی کی۔ کسی ستم ظریف نے خوب کہا ، "یہ کیسا مسلمان ملک ہے جہاں مسلم شاور تک نہیں! ہم نے ترکی کے بارے منشی محبوب عالم سے ابن انشاء تک کو پڑھا، سلطنتِ عثمانیہ سے لے کر جمہوریہ ترکی تک کی سب کارگزاری بیان کی، صاف ستھری سڑکوں، پھل، پنیر اور لوگوں کے قصے موجود لیکن مسلم شاور کا تذکرہ ہی نہیں۔ قومیں ایسے ہی زوال پذیر نہیں ہوتیں۔

ہم رات گئے اسلام آباد ائیرپورٹ سے اڑے اور علی الصبح استنبول پہنچے۔ ہمیں اگلی فلائیٹ سے انطالیہ جانا تھے۔ کرونا کے باعث ائیرپورٹ مکمل فنکشنل نہیں تھا۔ شومئی قسمت ایک ترک خاتون ، جو حلیئے سے ائیرپورٹ کا عملہ لگ رہی تھیں، پوچھ بیٹھے کہ کنیکٹنگ فلائیٹ کیلئے کہاں جانا ہے۔انہوں نے ہم سے بھی گئی گزری انگریزی میں آئیں بائیں شائیں کرکے ایک طرف کو اشارہ کیا، ہم چلنے لگے۔ ہماری دیکھا دیکھی باقی ماندہ قافلہ بھی چل پڑا۔ کافی دیر چلنے کے بعد پھر ایک اور عملے والے سے پوچھا تو اسنے مختلف سمت اشارہ کردیا۔ ہم وہاں پہنچے تو پھر واپس بھیج دئیے گئے۔ دو ڈھائی گھنٹے کا لے اوور ایسے ہی گزر گیا ، لاہور بہت یاد آیا۔ ترکی میں ہم انطالیہ، کونیا ، کیپڈوکیا اور استنبول گئے۔ ہر جگہ مختلف لیکن بہت صاف ستھری اور ٹھیک ٹھاک  تھی۔   انطالیہ کے کھانے اور زمانہ قدیم کی پرپیچ گلیاں، کونیا میں مولانا رومی کا مزار اور میوزیم – کیپڈوکیا کے مسحور کن پہاڑی مناظر اور استنبول تو واقعی خود میں ایک شاہکار شہر ہے۔ گزرے زمانوں کی تہذیبوں کا گہوارہ، عہدِ گزشتہ کی عظمتوں کا کتبہ، گلیوں سے گزتے ہوئے لگتا ہے صدیوں زمانوں سے گزر رہے ہیں، ہر گلی اپنے عہد کا پتہ دیتی ۔ صحابی رسولﷺ حضرت ابو ایوب انصاری کا مزار اور  آیا صوفیہ مسجد میں ایک عجیب روحانیت و پراسراریت محسوس ہوئی۔  گرینڈ بازار جا کر البتہ اپنے مری مال روڈ کا گماں ہوا، وہاں بھی دکاندار 10 کا مال 100 کا بیچ کر آپکی ذات پہ احسان کرتے ہیں اور یہاں بھی۔ تفریحی مقامات تو ایک طرف، آوارہ کتوں کے بھی کان پہ ٹیگ لگے تھے جس سے حکومت ویکسینیشن کا حساب رکھتی ہے۔ ہم ٹھہرے تماش بین مزاج صبح صبح انطالیہ کے کونیالٹی بیچ پر ایک آوارہ کتے کو چھیڑ بیٹھے پھر وہ ہم پانچوں لوگوں کو ہوٹل تک چھوڑ کے آیا۔   لوگ مہمان نواز، ملنسار  – موسم خوشگوار اور پکوان لذیذ تھے۔ ترکی ہمارا برادر اسلامی ملک ہے جہاں سے ہم باآسانی یورپ میں ڈنکی لگاتے ہیں اور  شاید ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں پاکستانیوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ مگر وہ دن دور نہیں جب ہم اپنی حرکتوں سے یہ مقام کھو دیں گے۔  کیونکہ گزشتہ کچھ عرصہ میں اقبال کے شاہینوں نے وہاں اپنا روایتی لُچ تلا ہے اور عوامی لعن طعن کیساتھ ویزہ پابندیوں میں اضافہ کا باعث بھی بنے ہیں۔  ابھی کیلئے اتنا ہی، باقی پھر سہی۔