ارطغرل کے دیس میں

عرصہ پانچ چھ سال بعد آج  ڈیجیٹل جھاڑ پونجھ کرتے ہوئے اس بلاگ پہ نظر پڑی تو یاد آئے وہ زمانے جب ہمارے (کی بورڈی قلم کے ) تلوں میں تیل ہوا کرتا تھا۔ بھلا زمانہ تھا جب رادھا نو من تیل پہ ناچا کرتی تھی، آجکل تو لیٹر لیٹر پہ عوام کو نچایا جا رہا  ہے،  فی زمانہ  حکمرانوں نے تیل ایسے   پہنچ سے دوررکھا ہے جیسے دوائیوں پہ لکھا ہوتا ہے ‘بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں’۔ خیر، بات یہ تھی کہ بلاگ دیکھ کر  ہماری رگِ بلاگیت پھڑکی اور سوچا کہ پھر سے اس ویران کوچے کو آباد کریں۔ بات گزرا زمانہ یاد کرنے سے چلی تھی سو ہم نے سوچا کیوں نہ پارسال جو ہم ارطغرل   دیس (ترکی ) کی یاترا کو گئے اسی کی روداد رقم کردیں۔ بلاگ کا بلاگ ہوجائیگا اور چشمِ تصور میں پھر وہی گلیاں اور مورتیاں رقصاں ہوجائیں گی۔

قصہ یوں ہے کہ ہم ارطغرل کی دیس گئے۔ کب کیسے اور کیوں گئے، یہ کہانی پھر سہی کیونکہ کرونا وائرس کے بعد پاکستانی ایسے ترکی گئے جیسے مری ایوبیہ  نتھیا گلی جاتے ہیں ۔ ضروری بات یہ ہے کہ ہم بھی پہنچے۔ ارطغرل  ڈارمہ  نہیں دیکھا مگر عوام میں جو کریز تھا تو گمان ہوا شاید ترکی والے بھی ایسے ہی پگلائے ہونگے اور اپنی موٹر سائیکلوں ، گاڑیوں پہ کائی قبیلے کا نشان بنا اور موبائل فون پہ ارطغرل کی رنگ ٹون لگائے پھر رہے ہونگے۔  رنگ ٹون کا تو یہ عالم ہے کہ آج بھی ہر تھوڑی دیر بعد کہیں قرب و جوار سے ارطغرل کا گھوڑا دوڑنے لگتا ہے، اور یہ رنگ ٹون لگانے والے ایک خاص بریِڈ ہیں کہ پورا ردھم سنے بغیر کال نہیں اٹھاتے۔ خیر، بیک ٹو دا سٹوری۔  ہم اسی خمارِ ارطغرل میں ائیر پورٹ پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ ارطغرل کو بھلا بیٹھے ہیں، نارمل ، میموں صاحبوں والی زندگی گزار رہے ہیں۔ لش پش کاروں میں گھومتے ہیں، میٹرو میں سفر کرتے ہیں۔  دل نے بے اختیار کہا’

ؔ اگاں لاکے سانوں عشق دیاں آپ میٹھی نیند سونا ایں

ارطغرل تو رہا ایک طرف یہاں تو  نہ لوٹا ہے اور نہ مسلم شاور ۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ اس معاملہ کیلئے جو اہتمام میسر ہے بہت احتیاط کا متقاضی ہے، ہمیں خود کو نشانہ و پریشر  ٹھیک کرتے تین دن لگ گئے۔ لوگوں نے  منی بار سے منرل واٹر کی ٹھنڈی بوتلوں سے حاجت روائی کی۔ کسی ستم ظریف نے خوب کہا ، "یہ کیسا مسلمان ملک ہے جہاں مسلم شاور تک نہیں! ہم نے ترکی کے بارے منشی محبوب عالم سے ابن انشاء تک کو پڑھا، سلطنتِ عثمانیہ سے لے کر جمہوریہ ترکی تک کی سب کارگزاری بیان کی، صاف ستھری سڑکوں، پھل، پنیر اور لوگوں کے قصے موجود لیکن مسلم شاور کا تذکرہ ہی نہیں۔ قومیں ایسے ہی زوال پذیر نہیں ہوتیں۔

ہم رات گئے اسلام آباد ائیرپورٹ سے اڑے اور علی الصبح استنبول پہنچے۔ ہمیں اگلی فلائیٹ سے انطالیہ جانا تھے۔ کرونا کے باعث ائیرپورٹ مکمل فنکشنل نہیں تھا۔ شومئی قسمت ایک ترک خاتون ، جو حلیئے سے ائیرپورٹ کا عملہ لگ رہی تھیں، پوچھ بیٹھے کہ کنیکٹنگ فلائیٹ کیلئے کہاں جانا ہے۔انہوں نے ہم سے بھی گئی گزری انگریزی میں آئیں بائیں شائیں کرکے ایک طرف کو اشارہ کیا، ہم چلنے لگے۔ ہماری دیکھا دیکھی باقی ماندہ قافلہ بھی چل پڑا۔ کافی دیر چلنے کے بعد پھر ایک اور عملے والے سے پوچھا تو اسنے مختلف سمت اشارہ کردیا۔ ہم وہاں پہنچے تو پھر واپس بھیج دئیے گئے۔ دو ڈھائی گھنٹے کا لے اوور ایسے ہی گزر گیا ، لاہور بہت یاد آیا۔ ترکی میں ہم انطالیہ، کونیا ، کیپڈوکیا اور استنبول گئے۔ ہر جگہ مختلف لیکن بہت صاف ستھری اور ٹھیک ٹھاک  تھی۔   انطالیہ کے کھانے اور زمانہ قدیم کی پرپیچ گلیاں، کونیا میں مولانا رومی کا مزار اور میوزیم – کیپڈوکیا کے مسحور کن پہاڑی مناظر اور استنبول تو واقعی خود میں ایک شاہکار شہر ہے۔ گزرے زمانوں کی تہذیبوں کا گہوارہ، عہدِ گزشتہ کی عظمتوں کا کتبہ، گلیوں سے گزتے ہوئے لگتا ہے صدیوں زمانوں سے گزر رہے ہیں، ہر گلی اپنے عہد کا پتہ دیتی ۔ صحابی رسولﷺ حضرت ابو ایوب انصاری کا مزار اور  آیا صوفیہ مسجد میں ایک عجیب روحانیت و پراسراریت محسوس ہوئی۔  گرینڈ بازار جا کر البتہ اپنے مری مال روڈ کا گماں ہوا، وہاں بھی دکاندار 10 کا مال 100 کا بیچ کر آپکی ذات پہ احسان کرتے ہیں اور یہاں بھی۔ تفریحی مقامات تو ایک طرف، آوارہ کتوں کے بھی کان پہ ٹیگ لگے تھے جس سے حکومت ویکسینیشن کا حساب رکھتی ہے۔ ہم ٹھہرے تماش بین مزاج صبح صبح انطالیہ کے کونیالٹی بیچ پر ایک آوارہ کتے کو چھیڑ بیٹھے پھر وہ ہم پانچوں لوگوں کو ہوٹل تک چھوڑ کے آیا۔   لوگ مہمان نواز، ملنسار  – موسم خوشگوار اور پکوان لذیذ تھے۔ ترکی ہمارا برادر اسلامی ملک ہے جہاں سے ہم باآسانی یورپ میں ڈنکی لگاتے ہیں اور  شاید ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں پاکستانیوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ مگر وہ دن دور نہیں جب ہم اپنی حرکتوں سے یہ مقام کھو دیں گے۔  کیونکہ گزشتہ کچھ عرصہ میں اقبال کے شاہینوں نے وہاں اپنا روایتی لُچ تلا ہے اور عوامی لعن طعن کیساتھ ویزہ پابندیوں میں اضافہ کا باعث بھی بنے ہیں۔  ابھی کیلئے اتنا ہی، باقی پھر سہی۔
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے

کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے

ساری دنیا میں "پہلی محبت” بارے بہت دلفریب خوش فہمیاں ہیں۔ کچھ کہتے ہیں کہ پہلی محبت کبھی نہیں بھولتی۔ کچھ کہتے پہلی کے بعد اور محبت ہی نہیں ہوسکتی۔ بعضے کہتے ہیں کہ عورت۔ دوسری کے بعد پہلی محبت بھول جاتی ہے جبکہ مرد ساری زندگی نہیں بھولتا۔ واللہ اعلم۔

وہ انگریزی کی ایک بھلی سی کہاوت ہے سگِ آوارہ بارے، میں ہر گاڑی کے پیچھے بھاگتا ہوں مگر میں نہیں جانتا اگر کبھی کوئی گاڑی رک گئی تو میں اس کا کیا کروں گا۔ اس بات کو ایک شاعر نے یوں کہا جس کو انتہائی معمولی ترمیم کے ساتھ درج کیا جارہا ہے:

میں کیا کروں گا اگر وہ مل گیا امجؔد

ابھی ابھی میرے دل میں خیال آیا ہے

محبت پہلی دوسری تیسری یا جونسی بھی ہو ایک اپینڈکس ہے، جس کا  اگر ٹائم سے پتہ چل جائے تو والدین شافی علاج کردیتے ہیں۔  تو جن لوگوں کو شکوہ ہے کہ انہیں ‘پہلی محبت’ نہیں ملی ان سے التماس ہے کہ اللہ کا شکر ادا کریں۔ پہلی محبت آخری شادی ہوا کرتی ہے۔

ساحر لدھیانوی صاحب کی نظم میں کچھ بدتمیز سی ترامیم کرکے ذیل میں ایک خاکہ سا پیش کیا جارہا ہے کہ پہلی محبت مل جاتی تو کیا ہوتا:

کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے

خدانخواستہ تیرے ساتھ گزرنے پاتی

تو زندگی برباد ہو بھی سکتی تھی

مستقل افتاد ہو بھی سکتی تھی

 

یہ خوشی جو مری زیست کا استعارہ ہے

تیرے ہونے سے معدوم ہو بھی سکتی تھی

کچھ ایسا مشکل تو نہیں تھا، تجھے باآسانی

میری نیت معلوم ہو بھی سکتی تھی

 

عجب نہ تھا گھنگھریالے بالوں میں پھنس کر

تیرے پراندے کی بھول بھلیوں میں کھو رہتا

دنیا و مافیہا سے بے گانہ الم ہو کر

کارِ رن مریدی میں محو ہو رہتا

ان پڑھ رہ جاتا اور نہ آتا ہوتا ہنر کوئی

پڑتے جب خاندان والوں کے طعنے

تیرے پلو میں چھپ کر صبر کے گھونٹ پی لیتا

ادھار پیسے مانگ مانگ تیری مانگ  بھرتا

قرض خواہوں سے  چھپ  چھپ کے جی لیتا

 

صد شکر یہ نہ ہو سکا اور اب یہ عالم ہے

الحمدللہ تو نہیں ترا غم، تری جستجو بھی نہیں

ڈگری بھی لے چکا اور نوکری بھی لگ گئی

شادی  ہوگئی، اب اور کی آرذو بھی نہیں

 

دفتر و گھر میں تیزی سے ہورہا ہوں معتبر

سسرال میں ہوں داماد فیورٹ تر

بیگم کے ابو کررہے ہیں میرے نام بزنس

اسی میں سیٹ ہوجاؤنگا ریٹائر ہو کر

 

لمبی چھوڑ گیا ہوں، میں جانتا ہوں مگر میری ہم نفس

کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے

خلیفہ کا شکوہ - دعوتِ افطاری

خلیفہ کا شکوہ – افطار سپیشل

سوال کرنا فقیروں کو زیبا نہیں، خلافِ شان ہے۔
 بمشکل اڑھائی ہزار سال گزرے  ہوں گے وہ عبقری نادر روزگار کہ نام جس کا راسپوٹین تھا۔ اشرافیہ کی نارسائی بارے  اسنے کہا تھا  ،
پک گئیاں امبیاں،
راتاں ہوئیاں لمیاں
سٹوراں وچ ساڑ دتیاں ،
سانوں   نا           کلیاں
الحذر، الحذر۔یہ جوڑ جوڑ کر جو رکھتے ہیں سب ضائع جائے گا، کچھ نفع نہ دے گا۔  اپنے اعمال و اموال کا  حساب و جواب سب  کو دینا ہے۔ پچیس روزے ہونے کو آئے، اس فقیر کے ہونٹوں کی پپڑیاں جُڑی پڑی ہیں مگر کسی کو کیا مجال کہ جھوٹے منہ بھی افطاری کو پوچھا ہو۔اپنے یہاں نہ سہی ، شب بسری واسطے کسی پنج ستارہ ہوٹل ہوں میں  کٹیا ہی لے دی ہو کہ غریب آفاتِ زمانہ سے پرے،  غور و فکر کرسکے ،  دعائیں، التجائیں، مناجات کرسکے۔  ظاہراً انسان کیسا ہی خوش حال ہو دل میں مگر تمنا تو رکھتا ہے۔ یاوہ گوئی فقیر کی سرشت میں نہیں ورنہ دنیا دیکھتی سربازار می رقصم۔ عارف سے بہرحال ذکر کیا کہ  وہ شناسائے حالِ دل ہے  اور اسکا  میرا وہی "تو میرا حاجی بگویم ، من تیرا حاجی بگو” والا ناتا  ہے۔  عارف ٹھہرا صوفی منش بولا ‘ یہ سعادتیں مال و دولت سے نہیں، نصیبوں  سے ملتی ہیں۔ جنکے نصیب ہوتے ہیں وہی قرب پاتے ہیں، دعوتوں پہ بلاتے ہیں، عروج پاتے ہیں۔  ‘ پھر قائد مرحوم کا وہ مصرعہ پڑھا،
؎ کلامِ ناداں مردِ نرم و نازک پہ بے اثر
عارف  بہت بیبا بندہ ہے۔روز کی ایک مثال پکڑ لیتا ہے پھر جیسا بھی مسئلہ ہو اسی مثال پہ فٹ کرلیتا ہے:
؎ پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس  تم کو عارفؔ سے صحبت نہیں رہی
بوجوہ طبیعت بہت بوجھل تھی مگر عارف کی بات نے دل میں گھر کرلیا۔ اور آنے لگے غیب سے مضامیں خیال میں۔بیچ شبِ سیاہ کے اٹھ بیٹھا اور تفکر کےسمندر میں غوطہ زن ہوا۔
کہاں ایک طرف وہ ذی شان، عالی مقام، رعب و دبدبہ اور کردار و گفتار کا غازی۔  دیارِ غیر  میں بھی  مسلسل فتوحات کے جھنڈے گاڑ رہا ہے۔ ہاتھ و حالات گرچہ اکثر تنگ ہی رہتا ہے۔ پھر بھی کیسی نظرِ التفات اس فقیر پہ وہ کرتے ہیں۔ دعائیں پاتے ہیں، بلائیں ٹلواتے ہیں۔ ابھی چند ہی روز ادھر،  غیر ملکی دورے سے لوٹے۔ احقر بھی بوٹ پاشی کو گیا۔  بعد از بوسہ بوٹ، بڑھ کے  کیسے تھام لیا تھا۔ دل نثار ہو ہو گیا ۔  سلوکہ تہبند زیبِ تن کیئے ہوئے   آرام کرسی پہ بیٹھے تھے۔ فوراً   سلوکے  کی جیب سے ایک تھیلی سی برآمد کرکے فقیر کو پیش کی اور نسبتاً قریب آکر بولے،” رمضان آرہا ہے” روزے انہی سے کھولنا۔ گو تعداد میں کم ہیں مگر اخلاص کے ترازو پہ بہت بھاری ۔جو دیکھا تو پاؤ بھر ایرانی کھجوریں شاپر میں جگمگا رہی   تھیں۔  اللہ اللہ، ایسے راست گو، ایسے کھرے لوگ۔  فقیر نے بلندی اقبال و پائیداریِ استدلال کی صدا دی اور الٹے پیر پلٹ آیا۔   شاعرہ نے ایک فقرے میں فقیر کا  مدعا تمام کردیا،
؎ جب بھی کہیں گیا، لوٹا تو میرے پاس آیا
بس یہی بات اچھی ہے میرے ڈھول سپاہی کی
کپتان  کا گلہ کرنا  فقیر نے چھوڑ دیا ہے۔ جس دن  کپتان نے میرے ہاتھ سے بھنے ہوئے چنوں کا پیکٹ جھین  کھایا تھا، تب سے جان لیا، ان تلوں میں تیل نہیں۔
؎ جب توقع ہی اٹھ گئی غالبؔ
کیا کسی کا گلہ کرے کوئی

اور اک طرف وہ ہیں، جنہیں قارون کے خزانے عطا ہوئے ہیں۔ پیٹ میں گیس کی دوا بھی بلادِ غیریہ سے  جاکے لیتے ہیں۔ جن کے مرغن ڈکاروں سے اقتدار کے ایوان مہکتے ہیں۔کہنے کو  اقوامِ عالم میں انکا  طوطی بولتا ہے۔ مرسڈیز سے کم پہ سوار نہیں ہوتے۔ دن رات جن کے گھر دعوت کا سماں ہوتا ہے۔ دیگیں کھڑکتی رہتی ہیں۔ ہزار ہا انکے گنجِ گراں مایہ سے فیض پاتے ہیں۔ اتنی مگر ان کو توفیق نہیں کہ ڈونگہ بھر بریانی مع لیگ پیس ۔  تھوڑی فرنی اور جامِ شیریں کے یخ بستہ جگ  روانہ ہی کردیتے۔ دعوتِ افطار ویسے بھی ثواب ہے۔ اور    حاجاتِ بدنی سے سیر ہو کہ احقر گر ہاتھ اٹھاتا تو کیا ان کے طولِ اقتدار واسطے دعا  نہ کرتا؟ اور کچھ نہیں چند سطریں ان کی دلجوئی کو ہی لکھ مارتا۔ مگر عارف نے سچ کہا تھا،   یہ سعادتیں مال و دولت سے نہیں، نصیبوں  سے ملتی ہیں۔ جنکے نصیب ہوتے ہیں وہی قرب پاتے ہیں۔

اب وہ نام کے اعلیٰ، بلادِ غیر میں اپنے ہی گھر میں دبکے بیٹھے ہیں، باہر نکلنے کا یارا نہیں۔یا للعجیب۔
سوال کرنا مگر  فقیروں کو زیبا نہیں، خلافِ شان ہے۔

نیم سرکاری افسر

 نوکریوں کے معاملے میں الحمدللّٰہ ہم قسمت کے دھنی واقع ہوئے ہیں۔ نوکریاں تو ماشااللّہ ہم ایسے بدلتے ہیں جیسے سیاستدان پارٹیاں اور ہیرونیں شوہر بدلتی ہیں۔البتہ  اتنی مروت  ضرور کرتے ہیں  کہ:

جو دل پہ گزرتی رہی رقم کرتے رہے

وہ کماتے رہے، ہم فقط گنتے رہے

چاہے وہ ایک وڈے صاحب سے مڈبھیڑ کے قصے ہوں یا یکے بعد دیگرے انٹرویوز اور انکار ہو۔ نوکری بارے ہم نے عرض گزارش کی تھی کہ ” مَردوں کو نوکری اور بیوی ہمیشہ دوسروں کی اچھی لگتی ہے۔ اول الذکر کے بارے تو از قہرو مہر ِ زوجہ کبھی سوچنے کی جرات نہیں ہوئی البتہ تحقیق و تجسس کی ساری انرجی موخر الذکر پہ ہی صرف ہوئی ہے”۔ یہی تحقیق و تجسس ہمیں پرائیوٹ سیکٹر کی "کارپوریٹ سلیوری” سے "شاہ کا مصاحب” بناگئی، اب شہر میں پھرتے ہیں اتراتے۔

اگر اخباری اشتہار سے آفر لیٹر تک کے سفر کی رُوداد بیان کروں تو بلاگ کا ناول بن جائے۔ بس اتنا جان لیجئے کہ جب ایپلائی کیا تو فقط شادی شدہ تھے اور اپنے لخت جگر کی سالگرہ منا کر جوائن کیا۔ وہ جو غالبؔ نے کہا تھا ‘کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک’ وہ دراصل دفترِ سرکار میں عرضی کی شنوائی بارے کہا تھا۔ جہان دیدہ گھاگ بزرگان نے انٹرویو کے نام پر جو زبانی کلامی زیادتی کی وہ الفاظ کی گرفت سے باہر ہے۔ اسکے بعد سمجھ آئی کہ اجتماعی زیادتی زیادہ گھناؤنا جرم کیوں ہے۔ خیر، قصہ مختصر یہاں ہمیں آفر لیٹر ملا وہاں ہم نے گزشتہ کمپنی کو خیر آباد کہنا چاہا مگر  وہ داغدار ماضی کی طرح ساتھ چھوڑنے کو راضی نا ہوا اور نوٹس پیریڈ یوں گزرا جیسے خلُا کے مقدمے کی پیروی کرتے میاں بیوی ایک چھت تلے یوں رہ رہے ہوں کہ میاں روز کہے

"اوّل اوّل کی محبت کے نشے یاد تو کر”اور بیوی بھنا کر "مجھ سے پہلی سی محبت میرے ایکس ہزبینڈ نا مانگ”کا ورد شروع کردے۔

اللہ اللہ کرکے نوٹس پیریڈ ختم ہوا اور ہم دل میں جوش ولولہ امنگ اور ایسے ہی دیگر جذبات لیئے حجلہ سرکاری میں داخل ہوئے۔ یہاں ایک  غور طلب بات یہ ہے کہ ہم اپنے خیال میں کافی سلجھے ہوئے، سمجھدار اور کومپیٹنٹ انسان ہیں یہ الگ بات کبھی اسکا چرچا نہیں کیا۔ خیر، ہم جوائننگ دینے پہنچے اور وہاں سے ازلی کھجل خوارگی کا ایک نیا باب شروع ہوا۔

جن صاحب کو اپنی ڈگریاں و دیگر کاغذات جمع کروانے تھے وہ عمراً قائم علی شاہ سے بڑے نہیں تو چھوٹے بھی نہیں تھے۔ ہمیں دیکھتے پھر تعلیمی اسناد و ایکسپیرئنس لیٹرز دیکھتے اور سردست "ہونہہ” کرتے آگے بڑھتے جاتے، ہماری تقریباً تمام اسناد میں از اینڈ کی غلطیاں نکالیں اور ایسی کوتاہ بینیوں کو ملک کے روبہ زوال ہونے کا مورد الزام ٹھہرایا۔ اس قدر غلطیاں نکلتی دیکھ کر ہمارا مائینڈ کرنا بنتا تھا سو کیا، تس پہ وہ بولے "برخوردار تم ابھی سے اکتا گئے ہو آگے میرے سے بڑی بڑی فلمیں منتظر ہیں”۔ یہ مرحلہ بھی جیسے تیسے پار ہوا پھر ہیومن ریسورس اور ہمارے ہونے والے ڈیپارٹمنٹ کی سرد جنگ شروع ہوئی کوڈ ورڈز میں پتہ نہیں کیا کیا لکھ کر گھماتے رہے جس کا نتیجہ یہ نتھا کہ غلطی ہماری ہے۔ تادمِ تحریر بھی ہماری فائل لاپتہ ہے، سوائے کاغذ کے ایک ٹکرے کے ہم یہاں ملازم نہیں اسی سبب تنخواہ آتی ہے پر نہیں آتی۔ ہمیں تو چوکیدار تک دیکھ کر کہتا ہے

دفتر ہمارا ہے یہ  تمہارا نہیں

ڈپارٹمنٹ میں جو آئے تو دیکھا کہ اپنے کام کے علاوہ ہر فن میں یکتا ہیں۔ آٹھ گھنٹے بور ہوئے بغیر کیسے کاٹنے ہیں انہی سے سیکھا ہے۔ کیسی چھوٹی سے چھوٹی بات پہ سیر حاصل گفتگو کرتے ہیں کہ ریکارڈ شرما جائے۔ ہماری تیس سالہ زندگی کی سیکھی گندی باتیں ایک طرف اور یہاں چند ہفتوں کے دوران سیکھی باتیں ایک طرف۔ کام کو تنخواہ کا صدقہ سمجھتے ہیں اور فی زمانہ صدقہ کون کرتا ہے صاحب۔ بیلٹ کے سخت خلاف جوتے اور شرٹ کو منہ چڑھاتی پینٹ گویا یعنی کام تو بے ڈھنگا ہے فیشن بیہودگی کی حد تک بے ڈھنگا۔ باتیں ایسی ایسی کریں گے جیسے تمام تر پالیسیاں انہی سے پوچھ کر بنتی ہیں مشورے بھی ایسے نادر مگر "افسر” کے سامنے آتے ہی ایسے گھگھی بندھ جائے جیسے سنگدل محبوبہ کے سامنے تھوڑ دل عاشقوں کی۔

ہم جو بڑے ٹھاٹھ کیساتھ پرائیویٹ کمپنی سے ای میلز لکھتے پڑھتے آئے شروع میں جن  پہ علمی قابلیت جھاڑتے رہے اب انکی ڈاکٹری لکھائی میں فائلوں کے نوٹ پڑھنے و سمجھنے سے قاصر ہیں، پوچھیں توقابلیت کی جو زبانی دھاک بٹھائی ہے اس پہ برا اثر پڑتا ہے جو نا پوچھیں تو کام رکتا ہے۔ کام روکنے کی حد تک تو ہم نیم سرکاری افسر ہوگئے ہیں بس بغیرپڑھے  سمجھے فائل پہ ہاں نا کرسکنے کا انتظار ہے تاکہ مکمل سرکاری افسر بن سکیں۔

اوریجنلی پبلشڈ آن چائے خانہ ڈاٹ کام

لوٹا

آپ ایمرجنسی میں کارِ ضروری سے خانہ تنہائی میں جائیں اور فارغ ہونے کے بعد آپکی مطمئن نظریں جس الہ دین کے چراغ نما مدھانی کو ڈھونڈتی ہے اس طلسماتی شہ کو لوٹا کہتے ہیں۔

لوٹا

تاریخِ انسانی میں پہئیے کے بعد اگر کوئی قابل ذکر اور انقلابی ایجاد ہوئی ہے تو وہ لوٹا ہی ہے۔ آپ تصور کریں اگر لوٹے نا ہوتے تو آج ہمیں یکسر مختلف دنیا دیکھنے کو ملتی، مگر ناقدری کا یہ عالم ہے کہ جابجا بکتے ہیں کوچہ و بازار میں ارزاں نرخوں پہ!

لوٹے کی تاریخ ڈائنوسارس کے زمانے کے فوراً بعد سے شروع ہوتی ہے۔ ڈائنوسارس کے ہاتھ اگر چھوٹے نا ہوتے اور انہیں حاجت کے بعد نارسائی کا شکوہ نا ہوتا تو شاید وہ خود ہی لوٹا ایجاد کر لیتے۔

خیر، لوٹے کی خاصیت یہ ہے کہ یہ کسی بھی رنگ شکل مادے اور سائز کا ہوسکتا ہے مگر خامی یہ ہے کہ ایک بار لوٹا ہوگیا تو پھر نا بدلا جا سکتا ہے اور نا ہی بڑھ یا گھٹ سکتا ہے۔ غالبؔ کے مصرعہ کی طرح لوٹے کا پیام صلائے عام ہے یارانِ لوٹا دان کیلئے

؎          جب چاہو ہاتھ بڑھا کر اٹھا لو مجھ کو

لوٹا اوپر سے جیسا بھی نیچے سے ہمیشہ گول رہتا ہے جسکی وجہ سے اسکاسٹانس ایک نہیں رہتا۔ گھومتا لڑھکتا پھرتا ہے۔ سب کو زعم ہوتا ہے کہ لوٹا اسکا ہے مگر لوٹا جس کو چُست اسکو مفت کے مصداق صرف صاحب خانہ یا صاحب غسلخانہ کا ہوتا ہے۔ اسی لئے اسکی رفاقت ہمیشہ کم مدتی ہوتی ہے۔

لوٹے کا اصل مقصد دھیان بٹانا ہوتا ہے چونکہ اسکا پیندا چھوٹا ہوتا ہے اسی لئے ذرا سی ٹوٹی کھولنے پر یہ شور کرنا شروع کردیتا ہے اور اندر کی اصل شکست و ریخت کی بجائے باہر والوں کا دھیان صرف اسکے شور پہ رہتا ہے، جاننے والے جانتے ہیں کہ شور سے دھیان بٹانے ولی خوبی کے سامنے کیئے کرائے پہ پانی پھیرنا فقط ایک ثانوی فائدہ ہے۔  نیک لوگ وضو کیلئے بھی لوٹا استعمال کرتے ہیں۔ نماز پڑھی کس نے دیکھی مگر وضو والا لوٹا سب دیکھتے ہیں۔ مندرجہ بالا خصوصیات کی وجہ سے لوٹے کی میدانِ سیاست میں بھی کافی مانگ ہے۔ قرین قیاس ہے کہ تحریک (پرانا) پاکستان والے زمانے میں یہ لفظ پہلی مرتبہ سیاستدانوں کیلئے باقاعدہ طور اے استعمال کیا گیا، پھر لوگوں نے یہ لفظ شوقیہ استعمالنا شروع کردیا۔ مگر سیاست پہ بحث چونکہ ہمارا ٹاپک نہیں اور فی زمانہ ممنوعات و ممکنہ متروکات میں سے بھی ہے اسلئے ہم اس طرف نہیں جائینگے۔

لوٹے کی کم مائیگی یا کپیسٹی اسکا ڈرا بیک ہے۔ تھوڑی صفائی  اور رولا ڈال کر توجہ ہٹانے کیلئے تو یہ تیر بہدف نسخہ ہے مگر کام ودھ جائے تو ٹب یا بالٹی منگوانی پڑجاتی ہے جسکی اپنی قیمت ہوتی ہے۔ نیز  بڑے لیول کی لیکج کی صورت میں یہ فائدے کی بجائے نقصان دینے لگ جاتا ہے اور آپ کو چاروناچار باہر جانا پڑتا ہے۔ تھوڑے لکھے کو بوہتا جانیں۔

نوٹ: یہ تحریر محض ترویج علم و اصلائے عوام کیلئے لکھی گئی ہے کسی بھی سیاسی صورتحال یا حالیہ لیکج سے اسکا تعلق محض اتفاقیہ اور زبردستی  ہوگا اور ادارہ ہرگز ذمہ دار نا ہوگا۔

ویلنٹائن ڈے منانا حرام ہے

Published on chaikhana blog: http://chaikhanah.com/2016/02/15/valentine1/

ابھی یاد نہیں آرہا آپ اپنی پسند کا کوئی اچھا، رومانٹک سا شعر سوچ کے یہاں فٹ کرلیں پلیز۔ 1990 کی دہائی کی بات ہے۔ سردیوں کی خوبصورت دوپہر تھی، وہ درخت کی اوٹ سے چھپا سامنے گیٹ کھلنے کا انتظار کررہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد گھنٹی بجی اور خوبرو حسیناؤں کا جیسے سیلاب ہی امڈ آیا۔ وہ درخت کی اوٹ سے برآمد ہوا اور خراماں خراماں  چلتا ہوا ایک پری وش کے سامنے جاکھڑا ہوا۔ مسکرا کے اسے دیکھا، گڈ مڈ انگریزی میں دو تین الفاظ ادا کیئے اور ہاتھ میں تھاما ہوا گلاب کا نسبتاً مرجھایا پھول آگے بڑھا دیا۔ لڑکی ابھی صورتحال پوری طرح سمجھ کے جوابی کاروائی کرنے بھی نا پائی تھی کے شپاخ شپاخ دو زناٹے  دار تھپڑ اسے اپنی گردن اور گالوں پہ بالترتیب محسوس ہوئے اور جس جواب کا اسے لڑکی کے پنکھڑی جیسے ہونٹوں سے انتظار تھا وہ بھاری بھرکم آواز میں اسکے کانوں میں گونجے "ٹھہر جا ذرا، ویلنٹائن ڈے دا بچہ”  گال سہلاتے جونؔ ایلیا سے منسوب اس شعر کی عملی توجیہ بنے اسے وہاں سے بھاگتے ہی بنی۔
؎  چاہ میں اسکی طمانچے میں نے کھائے ہیں
دیکھ لو سرخی میرے رخسار کی
یہ ویلنٹائن ڈے سے اسکا پہلا تعارف تھا۔ اس نے سنا تھا کہ اس دن کسی بھی لڑکی سے اظہارِ محبت کرو تو وہ "ناں” نہیں کرتی۔ مگر شاید یہ نہیں سنا تھا کہ اسکے ابو کے سامنے کرو تو چپیڑیں بھی  پڑتی ہیں۔
وقت کا پہیہ چلتا رہا، وہ سکول سے نکل کر کالج پہنچ گیا اور سن و سال کے اعتبار سے تھوڑا سیانا بھی۔ موقع محل دیکھ کر کیسے اور کیا بات کرنی ہے اس نے سیکھ لی۔ انکے کالج کا ٹرپ اکثر "تعلیمی دوروں” پہ جاتا رہتا اور شہر کے "دیگر کالج” بھی ان دوروں پہ جاتے۔ انہی تعلیمی دوروں کے بیچ کتابوں کے پیچھے چھپا ایک کتابی چہرہ گلابی آنکھیں اسے بھائیں، ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے اس نے پہلے پورا ہوم ورک کیا اور موقع دیکھ کر تیر چلایا جو سہی نشانے پہ جا بیٹھا۔ زندگی میں پہلی بار کسی غیر محرم نے  بغیر کسی کام کے اسکی بات کا جواب دیا، خوشی کے مارے اسکے پاؤں زمیں پر نہیں ٹک رہے تھے۔ خیر، وقت گزرتا رہا وہ تھوڑا تھوڑا میچور ہوتا رہا، گھر سے غائب کردہ جیولری گفٹس کے سائے تلے اسکا عشق دن دگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگا۔ وقت گزرتا رہا اور  ایک بار پھر ویلنٹائن ڈے آن پہنچا۔ ماضی کی تلخیاں بھلا کر وہ خوش و خرم ایک ریستوران میں سیلیبریٹ کرنے چلا گیا۔
ویلنٹائن ڈےسرخ جوڑے میں تو آج وہ حور پری لگ رہی تھی، اس نے پکا سوچ رکھا تھا کہ آج پرپوز کر ہی دے گا۔ ابھی دونوں خوش  گپیوں میں مصروف تھے  کہ اچانک شپاخ کی دلخراش اور مانوس آواز اسکے کانوں میں گونجی اور اسکے بدن میں ٹیسیں  اٹھنے لگیں۔ حواس بحال ہونے لگے تو اسے احساس ہوا کہ موصوفہ کا بھائی رنگ میں بھنگ ڈالنے پہنچ چکا  ہے۔ خیر، مرتا کیا نا کرتا اسے وہاں سے بھاگتے ہی بنی۔ یہ ویلنٹائن ڈے سے اسکا دوسرا  تعارف تھا۔ آج اس نے سیکھا کہ ویلنٹائن منانے کیلئے صرف لڑکی ضروری نہیں بلکہ ایسی جگہ بھی ضروری ہے ‘جتھے بندہ نا بندے دی ذات ہووے’۔
وقت کا پہیہ پھر دگڑ دگڑ گھومنے لگا،  وہ کالج سے نکل کر یونیورسٹی آگیا اور ماضی کی ستم ظریفیوں کے سبب اس نے جنسِ مخالف کی بجائے ‘قوتِ بازو’  پہ انحصار کرنا شروع کردیا۔ وقت یونہی گزرتا رہا ، کئی ویلنٹائن ڈے آئے اور وہ ن م راشد کا حسن کوزہ گر بنا رہا ،
؎ جہاں زاد، نو سال دیوانہ پھرتا رھا ھوں!
یہ وہ دور تھا جس میں میں نے
کبھی اپنے رنجورماضی  کی جانب
پلٹ کر نہ دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب جبکہ قسمت کی لکیریں بھی مٹنے لگیں تو اسکے نصیب جاگے۔ نوکری لگنے کی دیر تھی کہ  محلے کی ایک دوشیزہ نے اسے پیام بھیجا، دستِ بازو سے اکتائے ذہن نے بغیر دیکھے، ملے پیام قبول کیا۔ محبت ابھی ابتدائی خط و کتابت پر ہی تھی کہ ایک دن ننھا اسلم جو محلے بھر کے خفیہ معاشقوں کا بلا مقابلہ منتخب قاصد تھا وہ انکا خط غلطی سے اسکے بھائی  کی دوکان پہ بھول آیا جس میں ویلنٹائن ڈے پہ خفیہ ملاقات کا پلان لکھا تھا۔ اس نے سوچا  اب کی بار پھر وہی تھپڑوں کی بارش اور پتہ نی کیا ہو، لیکن اس بار تھپڑوں سے زیادہ بری ہوئی، محلے داری کو رشتے داری میں بدل دیا گیا۔  شادی کیلئے چودہ فروری یعنی ویلنٹائن ڈے چنا گیا۔ حجلہ عروسی میں تیز دھڑکتے دل کیساتھ داخل ہوا ، سجی سنوری دلہن گھونگھٹ نکالے بیٹھی تھی، اس نے زیر لب گنگنا شروع کردیا ،
؎ سہاگ رات ہے گھونگھٹ اٹھا رہا ہوں میں
سمٹ رہی ہے تو شرما کے اپنی بانہوں میں
گنگناتے گنگناتے اس نے گھونگھٹ اٹھایا تو اسکی چیخ حلق میں آکے پھنس گئی اور بے اختیار اسکے منہ سے نکلا، ‘ایس تو چنگا مینوں چپیڑاں ہی مار لوو’ – بے ڈھنگے میک اپ میں لت پت اسکے بچپن کی نفرت مسکرا رہی تھی۔ نگاہوں کے سامنے بچپن کا فلیش بیک چلنا شروع ہوگیا  – اور وہ فرطِ یاداشت سے بیہوش ہوکر سوگیا۔
یہ ویلنٹائن ڈے سے اسکا آخری  اور بھیانک ترین  تعارف تھا۔  اسکی لوو میرج کو کافی سال گز چکے ہیں، جس میں سے میرج باقی ہے اور لوو گھونگھٹ اٹھنے کیساتھ ہی رخصت ہوگیا تھا۔ اب ہر سال وہ چودہ فروری کو ختم دلواتا ہے اور فیس بک، ٹوئیٹر پہ ایمان افروز پوسٹس کے علاوہ پرچے چھپوا کر بانٹتا بھی ہے اور لوگوں کو سمجھاتا پھرتا ہے کہ "ویلنٹائن منانا حرام ہے”

لاہوراورترقیاتی کام

تقریباً دو سال ہونے کو آئے، جب ہمیں ایک سال ہوا تھا لاہور پدھارے ہوئے اور ہم نے اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہوئے لاہور کی شان میں کچھ گستاخیاں کی تھیں مثالاً تو  لاہور،  لاہور ہی ہے۔ لیکن تین سال میں جبکہ ہم ہم نہیں رہے تو لاہور سے یہ امید  رکھنا بے فضول ہی ہے۔ تین سال پہلے اور اب میں قدرِ مشترک  جناب وزیرِ اعلیٰ چھوٹے میاں صاحب ہیں۔  میاں صاحب وزیرِ اعلاؤں کی بشریٰ انصاری ہیں ہمیشہ کی بذلہ سنجی، پرفیکشن، خطرناک حد تک نوجوانگی  اور  مسلسل اپنی کرسی پہ قائم رہنا،  ماشاءاللہ۔ قائم سے قائم علی شاہ جی یاد آگئے اگر میاں صاحب وزیرِ اعلاؤں کی بشریٰ انصاری ہیں تو شاہ جی بھی قاضی واجد ہیں سپاٹ فِل کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے مگر سن 1947 سے ہر ڈرامے میں جگہ ضرور پاتے ہیں۔ خیر، ہم کیا ذات کے بلاگر اور وزیرِ اعلاؤں کو جگتیں!
عوامی بات کریں تو لاہور اپنے کھابوں کیلئے ہمیشہ سے مشہور تھا  مگر سالِ گزشتہ لاہور کے کوچہ و بازار میں بکتا ہوا گدھے کا گوشت مزید عالمی شہرت کا باعث بنا۔ اب تو ڈر و احتیاط کا  یہ عالم ہے کہ اپنے سامنے بکرا ذبح کروا کر بھی پکوائیں تو دل میں عجب شک سا رہتا ہے۔  باقی رہی سہی کسر ہماری ہوم – میڈ جیولیا رابرٹس محترمہ عائشہ ممتاز نے پوری کردی۔ سوائے ہمارے کچن کے شاید ہی کوئی جگہ چھوڑی ہو جہاں چھاپہ مار کے عوام کا دل کھٹا نا کیا ہو۔ اب تو،
؎ دل جلانے کی بات کرتے ہو
باہر کھانا کھانے کی بات کرتے ہو
لاہور اس وقت شدید ترقی کی زد میں ہے۔ گزشتہ کافی سالوں سے مسلسل ترقیاتی کاموں کے باعث لاہور کی حالت بغیر وقفہ  ہر سال "خوشخبریاں دینے”  کے باعث اپنی عمر سے بیس سال بڑی لگنے والی نوعمر لڑکی جیسی ہوگئی ہے۔  میں میاں صاحب کی ایڈمسٹریشن کا مداح اور ترقیاتی کاموں کا بہت  بڑا سپورٹر ہوں لیکن  میری ایک عرض ہے کہ میاں صاحب ہن لہور دا کھیڑا چھڈ کے باقی پنجاب وی اکھیڑو۔ جتنا سیمنٹ اور کنکریٹ پچھلے چند سالوں میں تہہ در تہہ بچھائی گئی ہے اس سے بآسانی پورے لاہور پہ لینٹر ڈل سکتا تھا۔ اکثر سڑکوں کی ترقی یافتگی کو دیکھ کر انور مسعود صاحب  کی وہ نظم ‘قیمہ بوٹی، بوٹی قیمہ، مڑ بوٹی دا قیمہ’ یاد آجاتی ہے۔ مہینہ لگا کر ایک سڑک کشادہ کرتے ہیں اس پہ پیڈسٹرین برج بناتے ہیں اور پھر ہفتہ بھر بعد دوبارہ  اسی سڑک کو کھود کر مزید کشادہ کرتے ہیں سگنل فری بنا  دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
ویسے ایک بات ہے لاہور کی سڑکیں آدھے پاکستان کے گھروں سے زیادہ صاف ہیں ۔ موسم کی بات کریں تو کم گرمی، گرمی، شدید گرمی، بے انتہا شدید گرمی۔ چند سال قبل تک کی  مشہورِ زمانہ دھند پتہ نہیں کہاں کھوگئی ہے۔  اب تو دھند کے نام پہ دھندلکا سا ہوتا ہے وہ بھی کبھی روزِ ابر و شبِ ماہتاب میں!  پہلے پہل لوگ لاہور دیکھنے آتے تھے اب احتجاج کرنے آتے ہیں۔ آئے روز کہیں نا کہیں کوئی نا کوئی احتجاج کررہا ہوتا ہے جیسے لاہور میں احتجاج کرنے کا زیادہ ثواب ملتا ہو۔

ہیپی نیو ائیر – جانیز

جیسا کہ آجکل دستور ہے کہ جب تک آپ نے لاہور بیٹھ کر یہ ٹوئیٹ نہیں کیا کہ اسلام آباد میں بارش ہورہی ہے تو ان اندھوں کو کیسے پتہ چلے گا کہ بارش ہورہی ہے ویسے ہی جب تک آپ ٹوئیٹر و فیس بک پہ نہیں بتائیں گے کہ نیا سال آگیا ہے تو لوگوں کو کیسے پتہ چلے گا۔ اور یہ بھی رواج ہے کہ لگے ہاتھوں تھوڑی سی نصیحتیں بھی کردو تاکہ اپنا ‘بھار’ ہلکا ہوسکے۔ خیر، وقت کم ہے اور مقابلہ سخت ابھی بلاگ مکمل کرکے میں نے تمام دوستوں کو ایس ایم ایس بھی کرنا ہے کہ ‘اگر اس گزرے سال میں مجھ سے کچھ غلطیاں ہوئی ہوں تو براہِ مہربانی مجھے معاف کردیں وغیرہ وغیرہ’ تاکہ کل سے میں غلطیوں کا نیا کھاتا کھول سکوں۔ 2015 اور 2016 میں فرق وہی ہے جو "قبول ہے، قبول ہے، قبول ہے” سے پہلے اور بعد میں محبوبہ اور منکوحہ میں ہوتا ہے۔بہرحال، کچھ باتیں ہیں نئے سال سے متعلق جو آپ کے ذہن نشین کروانی مقصود تھیں:
  • محلے، دفتر، کالج، یونیورسٹی  کی جس لڑکی نے پورا 2015 آپ کو لفٹ نہیں کروائی 2016 میں آپ کی کونسی پلاسٹک سرجری ہو کے شکل شاہ رخ خان جیسی ہوجانی کہ وہ لفٹ کروائے گی؟
  • جس موٹر سائیکل، گاڑی پہ آپ پورا 2015 خوار ہوئے ہیں 2016 میں اس سے کیا  بہتری کی امید رکھتے ہیں؟
  • جو آپ پورے 2015 میں نہیں اُکھاڑ سکے، 2016 میں ایسا کیا اکھاڑ لینگے؟
  • 2016 میں آپ کی کون سی کمیٹی نکلنے والی ہے جو مالی اعتبار سے اچھا سال ہوگا؟
  • 2015 میں آپ نے ایسا کونسا تیر مارا ہے جو 2016 کی آپ کو اتنی خوشی ہورہی ہے؟ شکر کریں  چھوڑ جانے کا آپشن نہیں ورنہ شاید آپکا آج بھی 1986 ہی چل رہا ہوتا۔
  • 2016 میں کونسا بجلی کا بحران حل ہورہا ہے جو آپ کی بتیسی منہ کے اندر نہیں جارہی
  • 2016 میں بھی آپ نے "شیطان آپ کو یہ شئیر کرنے سے روکے گا” اور "دس لوگوں کو فارورڈ کریں آپ کو خوشخبری ملے گی” جیسی فیس بکی پوسٹس ہی شئیر کر نی ہیں
  • 2016 میں بھی آپ نے "ناٹی جٹ”، "کِلر راجپوت” اور "کیوٹ ببلو” جیسے ناموں سے فیس بک پروفائل بنانے ہیں
  • 2016 میں بھی آپ نے ڈریس پینٹ کے نیچے جوگرز پہن کے بارات کا فنکشن اٹینڈ کرنا ہے
  • 2016 میں بھی آپ نے ویسی ہیں چولیں مارنی ہیں جیسی 2015 اور اس سے پہلے سال مارتے تھے
  • 2016 میں بھی 80،000 کا لیٹسٹ فون خرید کر لینی آپ نے  ‘فٹے منہ’ جیسے منہ کی سیلفی ہے
  • کیا فائدہ 2016 کا جبکہ بیچاری عاصمہ ایسے ہی ایس ایم ایس کرکے 20، 20 روپے کا لوڈ منگوائے

لاسٹ بٹ ناٹ لیسٹ، جنہوں نے کچھ واقعی کرنا ہو وہ 30 دسمبر کو بھی تہیہ کرکے کرلیتے ہیں اور جنہوں نے نا کرنا ہو وہ یکم جنوری سے بھی کچھ نہیں کرتے۔ کلینڈر پہ تو ہر بار نیا سال آتا ہے، بات تو تب ہے کہ اس بار  آپ میں کچھ نیا آئے۔

تھوڑے لکھے کو بوہتا جانیں، دنیا امید پہ قائم ہے لیکن ضرورت سے زیادہ امید ہی ناامیدی کا سبب بنتی ہے۔ ہیپی نیو ائیر، جانیز 🙂
 originally published on soul.pk here

جگ بیتیاں، ہڈ بیتیاں

اختر شیرانیؔ مرحوم نے تو موئے عشق کو کستے ہوئے کہا تھا:
؎ قسمت کا ستم ہی کم نہیں کچھ، یہ تازہ ستم ایجاد نہ کر
اور یہاں ہم اس شعر کی عملی توجیح بنے بیٹھے ہیں۔ سانحہ تو یہ ہوا حادثے کے بعد، دل کے پھپھولے جس بلاگ پوسٹ پہ سہلائے وہ غموں کی تاب نہ لاتے ہوئے راہیءعدم ہوا۔ ہم نے بھی صبر شکر کرلیا کہ چلو بھئی ہم کون سا فیض احمد فیضؔ ہیں جو قسم کھائی ہو کہ
؎ ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
ایک تو کسی قسم کی رقم کا ہماری تحاریر سے کبھی کوئی واسطہ نہیں رہا اور نہ ہی مستقبل قریب و دور میں ایسی کوئی امید نظر آتی ہے۔ دوسرا یہ کہ ہمارے بہت سے دکھ خود ساختہ نوعیت کے ہیں۔ مطلب اسکا یہ کہ اگر ہم نہ ہوتے تو وہ کرب و الم بھی شاید ظہور پذیر نہ ہوتے۔ اب کل کی بات ہی لے لیجئے، ہمیں بیٹھے بٹھائے شکریئے کا بخار چڑھا ہوا تھا اور بلاوجہ قلق ہو رہا تھا کہ ہم نے آج تک ملی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کیا اور جبکہ نعمتیں رخصت پہ ہیں تو ہم علامتِ حزن و ملال بنے ہوئے ہیں۔ وجہ تسمیہ بیان کریں تو فقط اتنی تھی کہ ہمارا خانسامہ چھٹی پہ گیا اور پھر چلا ہی گیا، فون کرکے پوچھا تو شانِ بے نیازی سے بولا ابھی میری منگنی کی تقریب چل رہی ہے کل پرسوں بتاؤں گا کہ واپس آنا ہے یا نہیں۔ خیر، ہم ہنس دیئے، ہم چپ رہے۔ پھر ہمارا روم میٹ دفتر سے گھر لوٹا تو بخار میں دھت۔ کھانا پکانا ہمیں اتنا ہی آتا ہے جتنی سردیوں میں گیس۔ گیس سے یاد آیا کہ پاکستان میں جہاں جہاں سردی آتی جارہی ہے گیس وہاں سے رخصت لیتی جارہی ہے۔ اگلے سیزن کسی منچلے نے ایسا گانا بنا ڈالنا ہے ‘میں ایسی قوم سے ہوں جس کے وہ ہیٹروں سے ڈرتی ہے، بڑی گیس بنی پھرتی ہے ہمارے چولہوں سے لڑتی ہے’۔
خیر، میں آپ کو بتا رہا تھا کہ روم میٹ بخار میں دھت تھا اور کچن میں گندے برتن ایسے بکھرے پڑے تھے کہ فیضؔ مرحوم دیکھ لیتے تو کہتے،
؎ جابجا بکھرے ہوئے سنک و شیلف پہ برتن
سالنوں میں لتھڑے ہوئے چکنائی میں نہائے ہوئے
خیر، مرتے کیا نہ کرتے بلند عزم و حوصلے کیساتھ کچن میں گھسے اور کنفے برتنوں سے برسرِ پیکار ہونے لگے۔ گھمسان کا رن پڑا، اب یہ کہنا مشکل ہے کہ کچن ہمارے جانے سے پہلے زیادہ گندا تھا یا بعد میں ہوا، بہر صورت ہم نے برتن ایسے تہِ سکاچ برائٹ کیئے جیسے ہمارے اجداد کسی زمانے میں مخالفین کو تہِ تیغ کرتے۔ یہاں ہم برتنوں میں گھرے تھے اور وہاں ٹی وی لاؤنج سے اس خشک سردی میں بھی ‘رم جھم رم جھم پڑے پھوار’ کی اشتہا انگیز آواز کانوں میں رس گھول رہی تھی، آپ میں سے جس جسے نے نرگس فخری کا اشتہار دیکھا ہے وہ اشتہا انگیز کا لطف پا سکیں گے۔ نرگس فخری بھی کیا خوب خاتون واقع ہوئی کہ تمام قوم کو ایک "پیج” پر اکٹھا کردیا، بقول شاعر
؎ بے خطر کود پڑی جنگ اخبار میں نرگس
محوِ خدوخال ہے غوغا کرتی عوام ابھی
آپ ذرا یہ اندوہ ناک منظر سوچیں تو سہی۔ کہ آپ یخ بستہ پانی سے چکنائی میں لت پت کولیاں اور پلیٹیں مانج رہے ہیں اور آپکا ذہن لاکھ سمجھانے کے باوجود بھی جنگ اخبار پہ لگے اشتہار پہ ٹکا ہوا ہے۔ برتنوں کی ایسی ایسی چکنائی بھی اتری جو لگی ہی نہ تھی۔ خیر، قصہ مختصر، ہم نے برتن دھوئے گزشتہ روز کا بچا ہوا کھانا گرم کرکے کھایا اور دل مسوستے رہے کہ جب برتن دھلے دھلائے ملتے تھے ہم نے کبھی شکر نہ کیا، کھانا پکاپکایا ملتا تو نقص نکالتے آج سب خود سے کرنا پڑا تو کیسے احساس ہوا۔ تونہ تائب ہوکر سوگئے۔ یہاں بتاتا چلوں کہ الحمدللہ ہمارے فلیٹ پر کبھی پانی کی قلت نہیں ہوئی۔ لیکن آج صبح ہم نے اٹھ کر حسبِ معمول جیسے ہی منہ ہاتھ دھونے کیلئے ٹوٹی کھولی تو ہوا کے جھونکوں نے ہمارا استقبال کیا۔ ہمیں یکایک احساس ہوا کہ باقی شکرییئے تو رات کرلیئے تھے پانی کا ذکر ہی کوئی نہیں ہوا۔ یہ صرف ہمارا نہیں پوری قوم کا مسئلہ ہے کہ جب تک سر پہ نہ پڑے ہم بہت سی چیزوں کو فار گرانٹڈ لیتے ہیں اور جب وہ نہیں ہوتیں تو پچتاتے ہیں۔ ہم نے تو ٹھان لی ہے اب کہ جب جیسے کی بنیاد پہ شکریئے کریں گے، آپ کا کیا ہوگا جنابِ عالی؟؟

جاب انٹرویو

originally published here:
السلام علیکم!  سیانے کہتے ہیں کہ مَردوں کو نوکری اور بیوی ہمیشہ دوسروں کی اچھی لگتی ہے۔ اول الذکر کے بارے تو  از  قہرو مہر ِ زوجہ کبھی سوچنے کی جرات نہیں ہوئی البتہ تحقیق و تجسس کی ساری انرجی موخر الذکر  پہ ہی صرف ہوتی ہے۔  مزید سیانے یہ بھی کہتے ہیں کہ فی زمانہ رشتہ طے کرنا اور نوکری لینا ایک سے مشکل کام ہیں، ہم ان سے کبھی سہمت نا ہوتے اگر ایسا ایک واقعہ خود کیساتھ نہ پیش آیا ہوتا۔کچھ عرصہ قبل لنکڈ ان نامی ویب سائیٹ سے ایک ریکروٹر نے پروفائل شارٹ لسٹ کرکے ایک کمپنی میں بھجوائی، ہمیں اس کمپنی بارے زیادہ معلوم نا تھا مگر تجسس کے کیڑے نے کہا انٹرویو ضرور دینا چاہیئے غالبؔ چچا نے ایسے موقعوں کیلئے ہی تو کہا تھا  ‘مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے’۔ خیر، کچھ روز گزرے اور انٹرویو کی کال آگئی، ہم  مقررہ وقت سے پانچ سات منٹ پہلے پہنچ گئے، پہلا ٹاکرا ریسپشن پہ بیٹھے ایک نسبتاً باباجی سے ہوا، آجکل رسیپشن پہ بابے بٹھانے کا کون سا زمانہ ہے، کوئی خوبصورت دوشیزہ ہو تاکہ انٹرویو تو دلجمعی سے دیا جاوے یا انٹرویو کا انتظار ہی خوش دلی سے کیا جائے۔

خیر، مرتے کیا نہ کرتے چار و ناچار بابا جی سے کہا انٹرویو دینے آئے ہیں بولے ابھی بیٹھو وہاں لاؤنج میں، لاؤنج کا اے سی نہیں چل رہا تھا سو عرض کی اے سی چلا دیں، بولے نہیں چل رہا، کہا اچھا وہ ایل سی ڈی جو لگی ہے وہی آن کردیں خبریں سن لیتا ہوں بولے کیبل نہیں چل رہی، عرض کیا ایچ آر میں کال تو کرکے دیکھیں بولے ایکسچینج نہیں چل رہی۔ جھنجھنا کے پوچھا باہر ہوا چل رہی ہے تو وہاں چلا جاؤں بولے وہی تو بس چل رہی ہے۔ خیر، اللہ اللہ کرکے جن صاحب کو ملنے آئے تھے انکا دیدار ہوا، لفٹ حسبِ آفس نہیں چل رہی تھی۔      تین فلورز پہ مختلف آفسز اور ہرڈل رومز سے ہوتے ہوئے بالآخر ہم ایک راہداری نما ورک سٹیشن پہ بیٹھ کر اگلی منزل کا انتظار کرنے لگے اور سچویشن کے حساب سے   زیرِ لب گنگنانے لگے  ‘بیٹھے ہیں رہگزر پہ ہم، کوئی ہمیں اٹھائے کیوں’ اور بالآخر اٹھا کے کھڑکی کے سامنے والی صوفی پر بٹھا دئیے گئے۔ جن صاحب نے  انٹرویو لینا تھا وہ کہیں مصروف تھے اور ہم سوچنے لگے کے ایسے ہی جب کسی غریب کے گھر رشتہ دیکھنے آتے ہیں تو مہمانوں کو کھجل کرتے ہیں کبھی اس کمرے میں بٹھاؤ کبھی اس کمرے میں کہ اسکا پنکھا ٹھیک نہیں اسکا بلب جھپکے مارتا ہے وغیرہ۔

پہلے ایک صاحب آئے انہوں نے راہداری میں انٹرویو لیا جس کے سوالات زیادہ تر آپریشنل نوعیت کے تھے، پھر وہ ہمیں دوبارہ رسیپشن پہ بیٹھنے کا کہہ کر کسی اور صاحب کو بلانے چلے گئے، اب کی بار ایک کانفرنس روم میں ایچ آر کی مینجر نے تنخواہ، کس کس کمپنی میں کام کیا، کیوں چھوڑی یہاں کیوں آنا چاہے ٹائپ سوالات کا انٹرویو کیا، پھر ہمیں دوبارہ رسیپشن پہ بٹھا کر ڈپارٹمنٹ ہیڈ کو لینے چل دیں، ان صاحب نے صد شکر اپنے کمرے میں بٹھا کر چائے پوچھی اور یہاں کیوں آنا چاہتے ہو، موجودہ کمپنی میں کیا مسئلہ ہے، تنخواہ اتنی کیوں مانگ رہے ہو، اچھا اگر رکھ لیں تو مہینے کا نوٹس کیوں ہے، گاڑی چھوٹی کیوں ہے اور ایسے ہی کئی دیگر ذاتی نوعیت کے سوالات پوچھے ۔ الغرض جیسے غریبوں کے گھر بر دکھائی کو لڑکا آجائے تو کہتے ہیں نا دبئی والے چچا آئے ہوئے ہیں ان سے بھی مل لیں اور سیالکوٹ والی پھپھو بھی اتفاقاً آج آئی ہوئی ہیں انہیں بلا کر لاتے ہیں وہ بھی دیکھ لیں، لڑکی کا بھائی پندرہ بیس منٹ تک آئیگا تب تک چائے پی لیں اور پھر انٹرویو لیتے ہیں لڑکا کرتا کیا ہے، کماتا کتنا ہے بہن بھائی کتنے ہیں وغیرہ وغیرہ اور ہفتہ بھر بعد کال کرکے "آپ ہمیں بالکل پسند نہیں آئے” بالکل ویسے ہی ان کمپنی والوں نے دو دن بلا کے کمپنی نے ہر اس افسر جو انٹرویو لینے کے قابل تھا ہمارا انٹرویو دلوایا، تنخواہ تجربے سے لیکر ہر قسم کی معلومات حاصل کیں اور ایک بے رخ سے ای میل کردی کہ "آپ ہمیں پسند نہیں آئے”    اور ہم اپنے حسرتوں پہ آنسو بہاتے بلاگ لکھنے بیٹھ گئے۔